قہوہ خانے میں دھواں بن کےسمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ

تو بھی چاہے تو نہ چھوڑیں Ú¯Û’ Ø+کومت دل Ú©ÛŒ
ہم ہیں مسند پہ ترے غم کو بٹھائے ہوئے لوگ

اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار،ہم ہیں کسی Ù…Ø+فل سے اٹھائے ہوئے لوگ

نام تو نام مجھے شکل بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ ، وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ

آنکھ Ù†Û’ بور اٹھایا ہے درختوں Ú©ÛŒ طرØ+
یاد آتے ہیں اسی رت میں بھلائے ہوئے لوگ

Ø+اکم شہر Ú©Ùˆ معلوم ہوا ہے تابش
جمع ہوتے ہیں کہیں چند ستائے ہوئے لوگ